Humpback Whale underwater shot 2

Whale Khofnak Awazein Kese Nikalti Hai? Scientists Ne Yeh Raaz Jaan Liya

سائنسدانوں نے یہ راز جان لیا ہے کہ کس طرح سمندر میں موجود بڑی وہیل خوفناک اور پیچیدہ گانوں جیسی آواز نکالتی ہیں۔
Humpback Whale underwater shot 3
aamtv.pk

ہمپ بیک اور دیگر بڑی وہیل میں ایک مخصوص ’وائس باکس‘ ہوتا ہے جو انھیں زیر سمندر آواز پیدا کرنے یا گانے میں مدد دیتا ہے۔

نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس دریافت میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ہم سمندر میں جو شور کرتے ہیں وہ ان وہیلز کے لیے اس قدر تکلیف دہ کیوں ہوتا ہے۔

وہیل کا گانے یا آواز باریک ہوتی ہے اور یہ بحری جہازوں کی پیدا کردہ آواز سے مل کر اونچی ہو جاتی ہے۔

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے یونیورسٹی آف سدرن ڈنمارک کے پروفیسر کوئن ایلیمنز نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’آواز ان کی بقا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ وہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ جماع کرنے کے لیے سمندر میں ایک دوسرے کو تلاش کرتی ہیں۔‘

بالینز وہیل کی 14 اقسام ہیں جن میں پلیو ہمپ بیک، رائٹ، منک اور گرے وہیل شامل ہیں۔ ان وہیلز کے منھ میں دانتوں کی بجائے ایک بڑی ہڈی نما پلیٹ ہوتی ہے جسے بلین کہا جاتا ہے۔ جس سے یہ سمندر میں چھوٹی مچھلیوں اور خوراک کو بڑی تعداد میں نگلنے کے قابل ہوتی ہیں۔ اسی لیے انھیں بالین وہیلز کہا جاتا ہے۔

آج تک یہ راز ہی تھا کہ یہ وہیل یہ پیچیدہ یا خوفناک آواز کیسے نکالتی ہیں۔ پروفیسر ایلمنز کا کہنا ہے کہ یہ گتھی سلجھا کر وہ ’بے حد خوش‘ ہیں۔

انھوں اور ان کے ساتھیوں نے لیرنکس یا ’وائس بکس‘ کا استعمال کرتے ہوئے تجربات کیے، جنھیں تین وہیلز کی لاشوں سے احتیاط سے نکالا گیا تھا، ان میں ایک منک، ایک ہمپ بیک اور ایک سی وہیل تھی۔ اس کے بعد انھوں نے آواز پیدا کرنے کے لیے اس وائس بکس سے تیز ہوا گزاری۔

انسانوں میں آواز اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گلے میں موجود ووکل فولڈز سے ہوا گزرنے کے بعد ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔

جانوروں میں آواز پیدا کرنے کا یہ عمل ہوا ری سائیکل ہونے سے ہوتا ہے جو انھیں گلے میں پانی جانے سے بچاتا ہے۔

محققین نے کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے آوازیں پیدا کی جس سے ظاہر ہوا کہ بالین وہیلز کی آوازیں باریک ہوتی ہیں لیکن وہ بحری جہازوں کے پیدا کردہ شور سے مل کر اونچی ہو جاتی ہے۔

پروفیسر ایلمنز کا کہنا ہے کہ وہ اونچی آواز نہیں نکال سکتیں جیسا کہ وہ اونچی آواز میں گائیں تاکہ ہمارے شور سے بچ سکیں۔‘

ان کی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ سمندر میں جو شور ہم مچاتے ہیں وہ وہیل کو طویل فاصلے پر دوسری وہیل سے رابطے کرنے میں کیسے روک سکتا ہے۔ یہ بات ہمپ بیکس، بلیو وہیل اور خطرے سے دوچار دیگر وہیلز کے تحفظ کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔

یہ ان عجیب و غریب گیت نما آوازوں کے متعلق سوالوں کا جواب بھی دیتی ہے جس کی تلاش محققین دہائیوں سے کر رہے تھے اور جنھیں چند ملاح روحوں یا سمندری دیو ملائی آوازیں قرار دیتے رہے ہیں۔

اوریگون ریاست سے تعلق رکھنی والی وہیل کی بات چیت یا رابطے کی ماہر ڈاکٹر کیٹ سیفورڈ نے اس تحقیق میں ’اہم‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ سمندری ممالیہ جانوروں کے لیے آواز پیدا کرنا اور سننا سب سے اہم حس ہوتی ہے۔ لہذا یہ تحقیق کہ یہ آواز کیسے پیدا کرتے ہے اس میدان میں مزید تحقیق کے لیے بہت اہم ہے۔‘

اس تحقیق میں محققین نے ایک ارتقائی تصویر بھی پیش کی ہے کہ کس طرح وہیل ک زمین سے سمندروں میں آئی اور وہ موافقت جس نے پانی کے اندر ان کے لیے بات چیت کرنا ممکن بنایا۔

جس طرح دانتوں والی وھیل آواز پیدا کرتی ہیں اسے بہتر طور پر سمجھا گیا کیونکہ ان کا مطالعہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہ سمندری ممالیہ جن میں ڈولفن، آرکاس، سپرم وہیل اور پورپوز شامل ہیں اپنی ناک کے حصّوں میں ایک خاص ساخت کے ذریعے ہوا نکالتے ہیں۔

سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں سمندری ممالیہ تحقیقاتی یونٹ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایلن گارلینڈ کا کہنا ہے کہ ’میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ بالین وہیل، خاص طور پر ہمپ بیکس، جس پر میری تحقیق مرکوز ہے مختلف قسم کی آوازیں نکالتی ہیں۔‘

بڑی وہیلز پر تحقیق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ وہ آوازیں کیسے نکالتی ہیں خاض کر جب آپ انھیں دیکھ نہیں پا رہے ہوتی اور بھی مشکل ہے۔ لہذا محققین نے اس حوالے سے بہت شاندار کام کیا ہے۔

ڈاکٹر سٹیفرڈ کا مزید کہنا تھا کہ وہیلز کی جانب سے پیچیدہ آوازیں نکالنے کی صلاحیت رکھنا جہاں بہت شاندار ہے وہیں یہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ یہ جانور کتنے خاص ہیں۔

Read More: Lion Ne Is Shakhs Ko Hi Maar Dala Jo Barso Se Iski Dekh Bhaal Kar Raha Tha

More Reading

Post navigation

Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *