امر سنگھ چمکیلا کو انڈین پنجاب کا ’پہلا راک سٹار‘ مانا جاتا ہے جن کا نام ان کی زندگی پر بنائی جانے والی ایک فلم کی نمائش کے بعد ایک بار پھر سے زیر بحث ہے۔
فلمساز امتیاز علی کی ہدایتکاری میں بنائی جانے والی اس فلم میں دلجیت دوسانجھ اور پرینیتی چوپڑا نے امر سنگھ چمیکلا اور ان کی اہلیہ امرجوت کور کے مرکزی کردار نبھائے ہیں۔
اس فلم کو دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ امر سنگھ چمکیلا کی زندگی کسی فلمی کہانی سے کم نہ تھی؛ کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھو لینے والا ایک گلوکار جس کا سفر ایک تکلیف دہ موت پر ختم ہوا۔
اس کے باوجود انڈین پنجاب میں آج بھی امر سنگھ چمکیلا کا نام اور کام مشہور ہے۔
دلجیت دوسانجھ، جنھوں نے فلم میں امر سنگھ چمکیلا کا کردار ادا کیا ہے، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے گیت اب بھی مقبول ہیں اور بہت سے گلوکار ان کی نقالی کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنی شہرت کے عروج پر امر سنگھ چمکیلا اور ان کی بیوی کی جوڑی ایک شو کرنے کے عوض چار ہزار پانچ سو روپے معاوضہ لیا کرتے تھے اور لوگ دور دور سے انھیں دیکھنے آتے تھے۔
ان کے گانوں کے ریکارڈ ہاتھوں ہاتھ بکتے اور ہر قسم کی تقریبات میں ان کی موسیقی سننے کو ملتی۔ امر سنگھ چمکیلا کو ’پنجاب کا ایلوس پریسلے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایلوس پریسلے ایک ایسے معروف امریکی گلوکار تھے جو اپنی پرفارمنس کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور اسی لیے چمکیلا کے چاہنے والوں نے ان کو یہ نام دیا۔
امر سنگھ چمکیلا کون تھا؟
بی بی سی پنجابی کی ایک رپورٹ کے مطابق امر سنگھ چمکیلا 1960 میں لدھیانہ ضلع کے ڈگری میں پیدا ہوئے۔ ایک غریب دلت خاندان میں پیدا ہونے والے امر سنگھ چمکیلا کا پیدائشی نام دھنی رام تھا جن کے کندھوں پر جلد ہی یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی کہ گھر والوں کی معاشی مدد کے لیے کام کریں۔
اسی لیے انھوں نے لدھیانہ کی ایک گارمنٹ فیکڑی میں مزدوری شروع کر دی۔ امر سنگھ کے اہلخانہ کے مطابق ان کو گیت لکھنے کا بہت شوق تھا۔
اس زمانے میں پنجابی گیتوں کی دنیا میں سریندر شندا کا نام چھایا ہوا تھا۔ سریندر شندا کو امر سنگھ چمکیلا سے اپنی پہلی ملاقات یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ایک جگہ موجود تھا جب ایک ڈھول بجانے والا میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ ایک لڑکا ہے جو بہت اچھے گیت لکھتا ہے تو آپ اسے ایک بار سن لیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے پہلے انکار کیا لیکن پھر ملاقات کی حامی بھر لی۔ ایک ہلکی داڑھی والا لڑکا پگڑی پہنے آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو تو اس نے کہا کہ میں گیت لکھتا ہوں۔‘
پھر امر سنگھ نے سریندر شندا کے ساتھ کام شروع کیا اور ان کا نام امر سنگھ چمکیلا پڑ گیا۔ سریندر شندا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں یقین تھا کہ یہ لڑکا کچھ کرے گا۔‘
شہرت کا سفر
سریندر شندا کے لیے جب بھی سٹیج تیار ہونا ہوتا تھا تو یہ کام چمکیلا کے ذمے آتا۔ سپیکر لگانے سے لے کر ہر کام چمکیلا کو ہی کرنا ہوتا تھا۔
اسی زمانے میں سریندر نے ریکارڈنگ کے لیے کینیڈا کا دورہ کیا تو انڈیا میں ان کی ایک ریکارڈنگ کے لیے وہ واپس نہیں پہنچ سکے۔
انھوں نے ریکارڈنگ کمپنی سے کہا کہ وہ چمکیلا کو ایک موقع دیں اور یوں چمکیلا نے پہلا گانا ریکارڈ کروایا۔
اپنے کیریئر کے آغاز میں امر سنگھ نے بہت لوگوں کے ساتھ گیت گائے لیکن یہ ان کی اور امرجوت کور کی جوڑی تھی جو مقبول ہوئی۔
سریندر کا کہنا ہے کہ ’چمکیلا کو ایک سٹیج پارٹنر کی ضرورت تھی اور فرید کوٹ کی امرجوت کور کا اس سے تعارف ہوا تو آہستہ آہستہ دونوں کی کیمسٹری بن گئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ ان کی جوڑی مشہور ہوئی اور ان کا ایک گیت کافی ہٹ ہو گیا تو ایک دن چمکیلا میرے پاس مٹھائی اور شراب کی بوتل لے کر آیا اور اس نے مجھے پانچ سو روپے دینے کی پیشکش کی۔‘
چمکیلا اور امرجوت کا قتل
آٹھ مارچ 1988 کو امر سنگھ چمکیلا اور امرجوت کور کو جالندھر کے ایک علاقے میں قتل کر دیا گیا۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ ان کو کس نے قتل کیا تھا۔
امر سنگھ چمکیلا اپنے باغیانہ رویے کی وجہ سے مشہور تھے۔ ٹیلی گراف انڈیا کے مطابق امر سنگھ چمکیلا کے چند گیتوں کی شاعری کی وجہ سے بہت سے لوگ ان سے ناراض ہوئے۔
تاہم ٹیلیگراف کے مطابق 1980 کی دہائی میں پنجاب میں ایسے گیتوں کا رواج موجود تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب خالصتان تحریک اپنے عروج پر تھی۔
آٹھ مارچ 1988 کو امر سنگھ اور امرجوت ایک شو کرنے والے تھے جب دوپہر دو بجے کے قریب وہ اپنی گاڑی سے جیسے ہی باہر نکلے تو موٹر سائیکلوں پر سوار ایک گروہ نے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
امرجوت کور حاملہ تھیں جو چھاتی میں لگنے والی گولی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ امر سنگھ چمکیلا کو چار گولیاں لگیں اور وہ بھی موقع پر ہلاک ہوئے۔ ان کے دو ساتھی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔
اس قتل کے الزام میں کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور پولیس نے تفتیش تک کو بند کر دیا۔
پولیس کے ڈی ایس پی ہرجندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’امر سنگھ چمکیلا کے ڈرائیور کے بیان پر نورمحل تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور تفتیش کے دوران تین افراد کے نام سامنے آئے۔‘
عدالت نے ان تینوں ملزمان کو مفرور قرار دیا جو مختلف اوقات میں مخلتف مقامات پر پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔
Read More: Abbas Ibn Firnas: Parindon Jese Parr Bandh Kar Fiza Mein Urhne Wale Pehle Insan Kon The?
Leave a Comment