رمضان کے آتے ہی سحر و افطار کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان ماہ رمضان کا احترام کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پکوڑے اور سموسے جیسے پکوان گھروں میں بھی بننا شروع ہو جاتے ہیں اور شربت سے لگاؤ رکھنے والے لوگ اپنے افطار ٹیبل کو اس سے لازماً سجاتے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر رمضان کے ایک روایتی اور مقبول ترین مشروب کا نام آج کل ٹرینڈ کر رہا ہے۔
’مشروبِ مشرق‘ روح افزا گذشتہ کئی دہائیوں سے بہت سے لوگوں کا پسندیدہ مشروب رہا ہے اور رمضان کے مہینے میں اس کی مانگ میں ہمیشہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
عزیر حسن رضوی نامی صارف کے مطابق روح افزا کی رمضان میں ایشیائی مسلمانوں کے لیے وہی اہمیت ہے جو پالک کی کارٹون کردار پوپائی کے لیے تھی۔
اس مشروب سے پیار کرنے والے افراد کھل کر اس کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ماریہ سرتاج نامی صارف نے تو یہ تک کہہ دیا کہ رمضان اور روح افزا کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور افطار ٹیبل کی شان یہ لال شربت ہی بڑھاتا ہے۔
لال شربت کو دودھ کے ساتھ پیا جائے یا پانی کے ساتھ؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جس پر صارفین کا موقف الگ الگ ہے۔
صارفین ایک دوسرے کو مشورے دیتے نظر آئے کہ روح افزا جیسے لال شربت کو ان کی تجویز کردہ ترکیب کے تحت تیار کر کے اگر پیا جائے تو ہی ان کی ’روح کی افزائش‘ ہو پائے گی۔
البتہ ایسے بھی صارفین موجود تھے جن سے یہ ہضم نہ ہوا کہ لوگوں کا اس شربت سے اتنا دلی لگاؤ کیوں ہے۔
ڈاکٹر نزمہ نامی ایک صارف کو روح افزا کے خلاف بات کرنا مہنگا پڑ گیا۔
انھوں نے ٹویٹ کیا کہ کچھ صارفین نے درحقیقت انھیں روح افزا کے خلاف بات کرنے پر ٹوئٹر پر فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔
ڈاکٹر نزمہ کو اسی ٹویٹ کے نیچے کمنٹس میں ان افراد کی حمایت حاصل ہوئی جن کے خیال میں دیگر دوسرے مشروبات روح افزا سے کئی گنا بہتر ہیں۔
رمضان کی آمد پر لال شربت کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور صرف نامی گرامی روح افزا ہی نہیں بلکہ جام شیریں جیسے پاکستانی برانڈ کو بھی خاصا پسند کیا جاتا ہے۔
صارفین مختلف طور طریقوں سے یہ رائے جاننے کی کوشش میں مگن دکھائی دیے کہ آخر لال شربت کا کون سا برانڈ سب سے بہتر ہے۔ ٹوئٹر پر اس حوالے سے رائے منقسم دکھائی دی۔
یہ اختلاف رائے صرف سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ گھروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ کیسے انھیں جامِ شیریں پسند ہے مگر ان کے بہن بھائی روح افزا کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہمدرد یونانی دواخانہ طب کے شعبے میں صافی، سعالین، سنکارا، مستورین، جوشینا جیسی کئی اہم اور معروف ادویات بناتا ہے۔
اس دواخانے کی بنیاد سنہ 1906 میں غیر منقسم ہندوستان کے تاریخی شہر دلی میں حکیم حافظ عبدالمجید نے رکھی تھی۔
تقسیم ہند کے بعد حکیم حافظ عبدالمجید کے چھوٹے بیٹے پاکستان چلے آئے جہاں انھوں نے ہمدرد قائم کیا اور وہاں بھی روح افزا کی تیاری شروع ہوئی۔
رچیکا تلوار نامی ایک صارف نے اس تاریخ کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ روح افزا ان لاکھوں دیگر چیزوں کی طرح ہے جو پاکستان اور انڈیا کو جوڑتی ہے۔
اس مخصوص لال شربت کو بنانے والے مختلف برانڈز اپنی اشیا کو پاکستان اور انڈیا کے علاوہ مختلف ممالک میں بھی فروخت کرتے ہیں۔
راحل فرنینڈز نامی ایک صارف نے لکھا کہ کس طرح انھوں نے امریکہ میں ایک انڈین دکان سے پاکستانی روح افزا خریدا۔
روح افزا سے لگاؤ کی گواہی سنہ 2019 دے سکتا ہے کیونکہ گذشتہ برس انڈیا کے بازاروں میں روح افزا کمیاب ہو گیا تھا۔
مارکیٹ میں اس مشروب کی کمی کمپنی کے مطابق بعض جڑی بوٹیوں کی عدم دستیابی کے باعث تھی جو روح افزا کو واقعتاً روح افزا بناتی ہیں۔
اس کمی کے باعث گذشتہ سال ٹوئٹر پر ایک طوفان برپا ہو گیا تھا اور انڈین صارفین نے شربت دستیاب نہ ہونے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
پاکستانی صارفین نے انڈیا میں آئے اس ’بحران‘ کے دوران لال شربت کے اس مشترکہ پیار کو سمجھتے ہوئے انڈین صارفین کو یہ شربت عطیہ کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی تھی۔
Read More: Pakistan Or India Ke Darmiyan Tajarat Behaal Karne Mein Kia Rukawatein Hain?
Leave a Comment