وہ اپریل 2021 کی ایک یخ بستہ صبح تھی جب امریکی سائنسدانوں کا ایک گروپ 145 سال پہلے دفن کیے گئے ’قیمتی خزانے‘ کی تلاش کے لیے نکلا۔ اُن کے پاس ایک پرانا نقشہ تھا، زمین کھودنے کے لیے ایک بیلچہ، ایک ٹارچ اور زمین کی پیمائش کے لیے ایک فیتہ یعنی ٹیپ۔
سائنسدانوں کے اِس چھوٹے سے گروپ کی قیادت پروفیسر فرینک ٹیلیوسکی کر رہے تھے۔ پروفیسر فرینک ایک ماہر حیاتیات اور مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک محقق یعنی ریسرچر ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر فرینک ان پرانے نقشے کے محافظ بھی ہیں جو نسل در نسل چلتا ہوا اُن تک پہنچا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں سائنسدانوں کا یہ گروپ اس مقام پر پہنچا جس کی نقشے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ یہاں بیلچے کی مدد سے ابتدا میں زمین کو تھوڑا کھودا گیا جس کے بعد اس گروپ کی خاتون رکن سائنسدان مارجوری ویبر نے ہاتھوں کی مدد سے اور انتہائی احتیاط سے زمین کو مزید گہرا کھودنے کا کام شروع کیا۔ ہاتھ سے زمین کھودنے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں ’خزانے‘ کو بیلچے کی ضرب لگنے سے نقصان نہ پہنچ جائے۔
تھوڑی ہی دیر میں خاتون سائنسدان کے ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرائے، یہ ہونا تھا کہ گروپ میں موجود تمام سائنسدانوں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر پھر پتا چلا کہ وہ سخت چیز تو دراصل ایک درخت کی زیرزمین جڑ تھی۔چنانچہ ہاتھ سے کھدائی کا کام دوبارہ شروع کیا گیا، یہاں تک کہ انھیں ایک اور چیز یعنی ایک پتھر نظر آیا۔ سائنسدانو ں نے سوچا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
چنانچہ دوبارہ نقشہ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اصل جگہ سے تقریباً 60 سینٹی میڑ دور کھود رہے تھے۔ چنانچہ اصل مقام پر جانے کے لیے یہ گروہ یہاں سے تھوڑا آگے بڑھ گیا۔
اور نقشے کے مطابق جگہ پر کھدائی کے بعد انھیں اپنا مطلوبہ خزانہ مل گیا۔ یہ خزانہ ریت اور بیجوں سے بھری ایک آدھے لیٹر کی شیشے کی بوتل تھی۔ خاتون سائنسدان مارجوری ویبر کہتی ہیں جیسے ہی انھیں یہ بوتل ملی تو انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے ’ایک نومولود انتہائی حفاظت کے ساتھ ماں کی کوکھ سے دنیا میں آ چکا ہے۔‘
یہ خزانہ (بوتل) سنہ 1879 میں یہاں دفن کی گئی تھی اور لگ بھگ 15 دہائیوں کے بعد اسے حیاتیاتی سائنس کی تاریخ کے طویل ترین تجربات میں سے ایک پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے اس گروپ نے زمین سے برآمد کر لیا تھا۔
سنہ 1879 میں اس تجربے کا آغاز ماہرِ نباتات ولیم جے بِیل نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے کیا تھا کہ ایک بیج کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔
سنہ 1879 میں شروع ہونے والے اس تجربے کے گذشتہ 150 سالوں میں کئی سرپرست رہے ہیں جن میں سے اکثر اگرچہ سرپرست تو رہے لیکن وہ اس تجربے کا اختتام نہ دیکھ پائیں۔ اس تجربے کا اصل اختتام سنہ 2100 میں ہونے کی امید ہے۔ اور چند سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس تاریخ میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
گروپ میں موجود ایک سائنسدان پروفیسر لارس بروڈوِگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بِیل بیریڈ سیڈ تجربے‘ (یعنی بیل نامی سائنسدان کی جانب سے دفن کیے گئے بیج کا تجربہ) کا حصہ بننا بلاشبہ میرے کریئر کی ایک خاص بات ہے۔‘
’سنہ 2021 میں اس بوتل کو چُھونا اور ہاتھ میں پکڑنا جسے 150 سال پہلے خود ماہرِ نباتات ولیم جے بِیل نے دفنایا تھا واقعی اہم تھا۔ اور اس بوتل میں موجود بیجوں کو پودوں میں تبدیل ہوتے دیکھنا۔۔۔ یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔‘
ویڈ یعنی غیرضروری گھاس
ولیم جے بیل مشی گن زرعی کالج میں نباتاتی سائنسدان تھے اور وہ گھاس کو ختم کر کے فصلوں کی پیدوار بڑھانے کے سلسلے میں مقامی کسانوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب زراعت میں مشینری کا استعمال زیادہ نہیں تھا اور کسانوں کا انحصار بیلچوں، کدالوں اور اسی نوعیت کے ہاتھ سے چلنے والے دیگر آوزاروں پر ہوتا تھا۔ اور ایسی صورتحال میں اپنے کھیتوں کو ان چاہی جڑی بوٹیوں اور گھاس پھونس سے آزاد کروانا کافی مشکل اور محنت طلب کام تھا جس میں کافی وقت صرف ہوتا تھا۔
اس لیے بیل چاہتے تھے وہ گھاس اور ان غیرضروری جڑی بوٹیوں اور پودوں کے حیاتیاتی رویے کو سمجھیں اور یہ سمجھیں ایک دفعہ کھیت سے نکالنے جانے کے بعد بھی ان جڑی بوٹیوں کے بیچ کتنی دیر تک زمین میں زندہ موجود رہ سکتے ہیں اور بارآور ہو سکتے ہیں۔
اپنے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے انھوں نے شیشے کی 20 بوتلوں میں اس غیرضروری گھاس کی 23 اقسام کے 50 بیجوں سے بھرا۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان بوتلوں میں پانی داخل نہ ہو پائے انھوں نے ان بوتلوں کو منہ کے بل زمین میں دفن کیا۔
اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کہیں وہ ان دفن شدہ بوتلوں کا مقام نہ بھول جائیں انھوں نے نقشے ترتیب دیے۔ یہ تمام بوتلیں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے میدان میں دفنائی گئی تھیں۔
ابتدائی منصوبہ یہ تھا کہ ہر پانچ سال بعد ایک بوتل کو زمین سے نکال کر دیکھا جائے گا کہ آیا بیج زندہ ہیں یا نہیں۔
اس تجربے کے ابتدائی چند برسوں میں اس کے انچارج ولیم جے بیل خود تھے۔ اور اپنے دور میں انھوں نے جو بیج نکالے وہ زندہ تھے اور بارآور (یعنی زمین میں دوبارہ بوئے جانے کے بعد وہ پھوٹ پڑتے) تھے۔
ولیم 77 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تو انھوں نے اس تجربے کا انچارج اپنے ساتھی ہنری ٹی ڈارلنگٹن کو بنا دیا جو اس وقت 31 سال کے تھے اور نباتیات کے پروفیسر ہیں۔
’سپارٹنز‘ کہلائے جانے والے محافظ
یہ دیکھتے ہوئے کہ ابتدائی برسوں میں بیج زندہ رہے چنانچہ سنہ 1920 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب ہر دفن شدہ بوتل کو پانچ کے بجائے 10 سال بعد نکالا جائے گا اور جائزہ لیا جائے گا۔ صورتحال کچھ زیادہ نہ بدلی اور بیج زندہ رہے تو سنہ 1980 میں انتظار کی مدت کو 20 سال تک بڑھا دیا گیا یعنی اب بوتل کر 20 سال بعد نکالی جاتی ہے۔
سنہ 1879 میں اس تجربے کی ابتدا کے بعد سے اس تجربے کے سات محافظ رہے ہیں جو خود کو ’سپارٹنز‘ کہتے ہیں۔ یہ محافظ چاہتے ہیں کہ اِن بوتلوں کو متجسس لوگوں کی نظروں سے دور رکھا جائے۔
بروڈوگ کہتے ہیں کہ ’یہ بوتلیں جہاں دفنائی گئی ہیں وہاں کو نشان نہیں لگائے گئے، نہ ہی وہاں کوئی گارڈز کھڑے ہوتے ہیں، لیکن یہ کافی محفوظ ہیں اور ایسا حسین اتفاق کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا کہ وہ انھیں نقشے کی مدد کے بغیر ڈھونڈ نکالے۔یونیورسٹی کے کیمپس جس میں یہ دفن ہیں وہ دو ہزار سے زیادہ ہیکٹر پر محیط ہے۔‘
سنہ 2016 سے اس تجربے کے محافظ یا انچارج پروفیسر فرینک ٹیلیوسکی ہیں، جنھوں نقشے کا محاظ قرار دیا جاتا ہے۔ اس نقشے کے گم ہونے کی صورت میں اس کی ایک کاپی بھی بنائی گئی ہے اور وہ کاپی بھی فرینک کے پاس ہے۔
سنہ2021 میں فرینک نے سائنسدانوں کے اس گروپ کی سربراہی کی تھی جس نے دفن شدہ 14ویں بوتل کو نقشے کی مدد سے زمین سے نکالا تھا۔
سوئی ہوئی خوبصورتی
تقریباً 150 سال گزرنے کے بعد بھی کچھ بیج 2021 میں بھی زندہ تھے اور بارآور ہو رہے تھے جس نے سائنسدانوں کو بیجوں کی لمبی عمر کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی ہیں۔
دہائیوں پہلے کے برعکس، اب ماہرین ایسے مطالعے کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن کا وہ بیل کے زمانے میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، جیسا کہ ڈی این اے۔
بوتل نمبر 14 میں نکالے گئے بیجوں کے مالیکیولر جینیٹکس ٹیسٹ سے یہ پتا چلا کہ اس بوتل میں اتفاقی طور پر ’وربسکم بلاٹیریا‘ اور ’ورباسکم تھیپسس‘ نامی ہائبرڈ پودے کا بیج بھی شامل ہو گیا تھا۔
اگرچہ بیل کا ابتدائی مقصد کسانوں کو بیج کی لمبی عمر کا تعین کرکے جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے میں مدد کرنا تھا، لیکن 144 سال گزرنے کے بعد بھی سائنسدانوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
بروڈوگ کہتے ہیں کہ بوتل نمبر 14 میں نکالے گئے بیج کسی خوبصورت سوئی ہوئی شہزادی کی طرح ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پودوں کی مختلف انواع کے بیج مختلف ادوار میں غیر فعال حالت میں زندہ رہ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بیل کے تجربے سے ہمیں پتا چلا کہ بیج کی عمر پانچ سے 140 سال تک ہو سکتی ہے اور یہ تجربہ ابھی جاری ہے۔
کیا گھاس کبھی نہیں مرتی؟
اس تجربے پر کام کرنے والے سائنسدان اس حوالے سے بہت محتاط ہیں۔ وہ رات کو بیجوں کو کھودتے ہیں تاکہ سورج کی روشنی ان پر کسی بھی طرح سے اثر انداز نہ ہو۔ اور لیبارٹریوں میں وہ قدرتی ماحول سے حالات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بروڈوِگ کہتے ہیں کہ بیجوں کو بوتل سے نکال کر ’ ہم نے بیجوں کو اگانے کے لیے احتیاط سے کنٹرول شدہ درجہ حرارت، روشنی اور نمی کے ساتھ ایک گروتھ چیمبر میں استعمال کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس تجربے کی مطابقت بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ بیل نے تقریباً 150 سال پہلے اس کا تصور کیا ہو گا۔‘
مثال کے طور پر گھاس کی مختلف اقسام دیگر پودوں اور اور پریشان کن حملہ آور مٹی میں غیر فعال رہ سکتے ہیں، بعض اوقات کئی سالوں تک۔
ان کے مطابق اس کے بارے میں مزید جاننے سے مقامی ماحولیاتی نظام کی بحالی کی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے ، جیسا کہ گھاس کے میدانوں اور جنگلات اور فصلوں والے علاقوں کے بارے میں۔
بوتل نمبر 20 تک پہنچنے میں سپارٹنز کی مزید کئی نسلیں درکار ہوں گی۔ اس بوتل کو 2100 میں زمین سے نکالا جائے گا۔ لیکن سائنسدانوں ہر کھدائی کے درمیان مدت میں توسیع کو مسترد نہیں کرتے یعنی عین ممکن ہے کہ ہر بوتل نکالنے کے درمیانی وقت میں مزید توسیع کر دی جائے۔
کیا سنہ 2100 میں نکالی جانے والی بوتل میں موجود بیج دفنائے جانے کے 220 سال بعد بھی پھوٹ پائیں گے؟
اسے دریافت کرنا دوسری نسلوں پر منحصر ہو گا۔
Leave a Comment