انڈیا نے چاند پر قدم رکھ کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہی تھی مگر اب اُن کی توجہ آسمان کی بجائے سمندر کی گہرائیوں پر ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے؟ تو جواب بس اتنا سا ہے کہ ’انڈیا سمندر کی گہرائیوں میں چُھپی قیمتی معدنیات کی تلاش میں یہ سب کرنا چاہتا ہے، جسے وہ ایک روشن مستقبل کی کلید سمجھتا ہے۔‘
انڈیا کے پاس پہلے سے ہی بحر ہند کے گہرے پانیوں میں تحقیق کے لیے دو لائسنس موجود ہیں، تاہم سمندر کی گہرائیوں سے قیمتی معدنیات کے حصول کے لیے بڑی عالمی طاقتوں کے مابین جاری دوڑ میں شامل ہونے کے لیے انڈیا نے مزید دو لائسنسوں کے لیے درخواست دی ہے۔
چین، روس اور انڈیا سمیت دیگر کئی ممالک سمندروں کی سطح سے ہزاروں میٹر نیچے موجود معدنی وسائل کوبالٹ، نکل، تانبا، مینگنیز جیسی اہم اور قیمتی دہاتوں کے بڑے ذخائر تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا استعمال توانائی کی پیداوار میں مدد دینے والے متبادل ذرائع یا قابلِ تجدید توانائی جن میں شمسی اور ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی میں ہوتا ہے۔
معاملہ بس یہاں نہیں رُکتا بلکہ اس شعبے میں آگے بڑھنے سے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں اور بیٹری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے اور پھر ماحویاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر انداز میں لڑنے میں مدد بھی ملے گی۔
اقوام متحدہ سے وابستہ انٹرنیشنل سیبیڈ اتھارٹی (آئی ایس اے) نے اب تک 31 ایکسپلوریشن لائسنس جاری کیے ہیں جن میں سے 30 فعال ہیں۔ اس کے رکن ممالک کان کنی کے لائسنس دینے کے بارے میں قواعد و ضوابط پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس ہفتے جمیکا میں ایک اہم اجلاس کر رہے ہیں۔
اگر آئی ایس اے انڈیا کی نئی درخواستوں کی منظوری دیتا ہے تو اس کے لائسنس کی تعداد روس کے تو برابر ہو جائے گی مگر چین کے پاس موجود لائسنس سے کم ہی ہوگی۔
انڈیا کی جانب سے جمع کروائی جانے والی دو لائسنسوں کی درخواستوں میں وسطی بحر ہند میں تانبے، زنک، سونے اور چاندی کے ذخائر کی تلاش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
بی بی سی کو ملنے والی ایک دستاویز کے مطابق آئی ایس اے کے قانونی اور تکنیکی کمیشن نے اس بارے میں تبصروں اور سوالات کی ایک فہرست انڈین حکومت کو بھیجی ہے۔
دوسری درخواست کے جواب میں وسطی بحر ہند میں اہم مقام ’افاناسی نکیتین سیماؤنٹ‘ کے کوبالٹ سے مالا مال فیرومینگینیز کی تہہ کا پتہ لگانے کے لیے ہے۔ کمیشن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایک اور نامعلوم ملک نے سمندری علاقے (جس کے لیے انڈیا نے درخواست دی ہے) کو اپنا توسیع شدہ حصہ قرار دیا ہے اور انڈیا سے اس بارے میں جواب مانگا ہے۔
انڈیا کی جانب سے دی جانے والی ان درخواستوں کے نتائج جو بھی سامنے آئیں، ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ انڈیا سمندر کی تہہ سے قیمتی معدنیات کے حصول کی دوڑ میں پیچھے رہنے والا نہیں ہے۔
امریکہ میں قائم جیو پولیٹیکل اور سپلائی چین انٹیلی جنس فراہم کرنے والے ہورائزن ایڈوائزری کے شریک بانی ناتھن پیکارسک کہتے ہیں کہ ’بحر ہند بڑی تعداد میں قیمتی ذخائر کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی حکومت سمندر کی ان گہرائیوں تک پہنچنے اور اپنی تحقیق کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ ان سے اُن کا مستقبل وابسطہ ہے۔‘
انڈیا، چین، جرمنی اور جنوبی کوریا کے پاس پہلے ہی بحر ہند میں پولی میٹلک سلفائیڈز کی تلاش کا لائسنس موجود ہے۔
سنہ 2022 میں انڈیا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشن ٹیکنالوجی نے وسطی بحر ہند میں 5270 میٹر کی گہرائی میں اپنی کان کنی کی مشین کے تجربات کیے اور کچھ پولی میٹلک نوڈولز (آلو کی شکل کی چٹانیں جو سمندر کی تہہ پر واقع ہیں اور مینگنیز، کوبالٹ، نکل اور تانبے سے مالا مال ہیں) جمع کیں۔
انڈیا کی وزارتِ ارتھ سائنسز نے ملک کے گہرے سمندر میں کان کنی کے منصوبوں کے بارے میں بی بی سی کے سوالات کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا۔
جرمنی کے پوٹسڈیم میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبلٹی میں سمندری نظم و نسق پر کام کرنے والے پردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ انڈیا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہو کہ وہ اپنے آپ میں ایک نئی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے، اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی دینا چاہتا ہے کہ جب گہرے سمندر کی بات آتی ہے تو وہ چینیوں سے پیچھے نہیں۔‘
امریکہ بین الاقوامی پانیوں کی کان کنی کی دوڑ کا حصہ نہیں ہے کیونکہ اس نے سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق نہیں کی، جس معاہدے کی وجہ سے آئی ایس اے کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کے بجائے، اس کا مقصد اپنے قریبی سمندری علاقوں سے معدنیات حاصل کرنا ہے۔
گہرے سمندر میں تحقیق اور تلاش کے حامیوں کا کہنا ہے کہ زمین پر کان کنی تقریباً اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، جس کے نتیجے میں کم معیار کی پیداوار ہوئی ہے، اور یہ کہ معدنیات کے ذرائع کے بہت سے علاقے تنازعات یا ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔
لیکن ماحولیاتی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ گہرے سمندر کی تہہ کرہ ارض کی آخری سرحد ہے جس کا ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے اور وہاں کان کنی ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، چاہے اس کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔
برطانیہ، جرمنی، برازیل اور کینیڈا سمیت تقریباً دو درجن ممالک بھی گہرے سمندر میں کان کنی کو روکنے یا عارضی طور پر اس پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان گہرائیوں میں سمندری ماحولیاتی نظام کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔
عالمی بینک کی جانب سے پیش گوئی کی گئی ہے کہ ماحول دوست توانائی اور اس ٹیکنالوجی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے 2050 تک اہم معدنیات کی کھدائی میں پانچ گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
انڈیا کا 2030 تک اپنی قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت کو 500 گیگا واٹ تک بڑھانے اور اس وقت تک اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 50 فیصد تک ٹارگٹ حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے انڈیا کو گہرے سمندر سمیت تمام ممکنہ ذرائع سے اہم معدنیات حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
فی الحال، کچھ ممالک زمین پر اہم معدنیات کی پیداوار پر حاوی ہیں۔ آسٹریلیا لیتھیم کا ایک بڑا پروڈیوسر ہے، جبکہ چلی تانبے کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔ چین بنیادی طور پر گریفائٹ کے حصول پر کام کر رہا ہے کہ جس کی مدد سے وہ سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کی صنعت میں آگے بڑھنے اور اس میں اپنا راج قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔
لیکن سپلائی چین میں داخل ہونے سے پہلے ان معدنیات کی پروسیسنگ میں چین کے غلبے کے بارے میں جغرافیائی سیاسی خدشات موجود ہیں۔
انٹرنیشنل رینیوایبل اینرجی ایجنسی کے مطابق، چین، جس نے دہائیوں سے پروسیسنگ ٹیکنالوجیز اور مہارت کو فروغ دیا ہے، فی الحال قدرتی گریفائٹ اور ڈسپروسیم کی 100 فیصد ریفائنڈ سپلائی، 70 فیصد کوبالٹ اور تقریباً 60 فیصد پروسیسڈ لیتھیم اور مینگنیز کو کنٹرول کرتا ہے۔
مزید برآں، بیجنگ نے اپنی کچھ پروسیسنگ ٹیکنالوجیز کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔
امریکی وزیر توانائی جینیفر گرانھوم نے اگست 2023 میں معدنیات اور ماحول دوست توانائی کے ایک اہم اجلاس میں کہا تھا کہ ’ہمارا مقابلہ ایک غالب سپلائر سے ہے جو سیاسی فائدے کے لیے مارکیٹ کی طاقت کو ہتھیار بنانے کے لیے تیار اور کوشاں ہے۔‘
چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور متعدد مغربی ممالک نے سنہ 2022 میں معدنیات کی سکیورٹی پارٹنرشپ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد ’اہم معدنیات کی سپلائی چینز میں سرمایہ کاری‘ کو فروغ دینا تھا۔ انڈیا اب اس کا رکن ہے۔
انڈیا نے گہرے سمندر میں کان کنی کی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے روس کے ساتھ ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔
امریکہ میں قائم جیو پولیٹیکل اور سپلائی چین انٹیلی جنس فراہم کرنے والے ہورائزن ایڈوائزری کے شریک بانی ناتھن پیکارسک کہتے ہیں کہ ’بڑھتے ہوئے جیو پولیٹیکل تناؤ نے توانائی کے حصول کے لیے معدنیات کو نکالنے، ان پر عمل کرنے اور استعمال کرنے کی جدوجہد کو تیز کر دیا ہے۔‘
Leave a Comment