موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی ہم میں سے اکثر افراد کو بس اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ میٹھے اور رسیلے آم کب بازار میں دستیاب ہوں گے۔
مشہور تاریخ دان کرنل مارک ولکس لکھتے ہیں کہ ’ٹیپو سلطان قد میں والد حیدر علی سے چھوٹے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ عام سے دکھتے تھے اور وزن میں ہلکے کپڑے پہنتے تھے اور اپنے ساتھ رہنے والوں سے بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہتے تھے۔ ان کو بیشتر گھوڑے پر سوار دیکھا جاتا تھا۔ وہ گھڑسواری کو بہت بڑا فن مانتے تھے اور اس میں انھیں مہارت بھی حاصل تھی۔ انھیں ڈولی میں سفر کرنا سخت ناپسند تھا۔‘
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے ”امراضِ قلب و گُردہ،فالج،نابینا پَن اور ذیابیطس کی پیچیدگیوں کا اصل محرک بُلند فشارِ خون ہے۔اگر بلڈ پریشر قابو میں رہے،تو ان امراض پر کنٹرول رکھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔“دُنیا بھر سمیت ہمارے ملک میں بھی ہائی بلڈ پریشر کا مرض عام ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ اکثریت اپنے اس مرض سے ناواقف ہے،کیونکہ زیادہ تر افراد میں بُلند فشارِ خون کی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں،اسی لئے اس مرض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔
سُننے کا تعلق کان کے تین خاص حصوں سے ہے۔بیرونی کان،درمیانی کان اور اندرونی کان۔آواز کی لہروں (ارتعاشات) کو بیرونی کان وصول کر کے کان کے سوراخ کے راستے سے طبلِ گوش (کان کے نقارے) تک پہنچاتا ہے۔درمیانی کان میں تین چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں۔عظیمِ رکابی،عظمِ سندانی اور عظمِ مطرقی۔یہ ہڈیاں آواز کو دوسری جھلی (عشاء) تک ارشال کرتی ہیں۔
قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ”اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔“اگرچہ روزے کا بنیادی مقصد تقوی پیدا کرنا ہے، مگر اس کے طبی پہلو کی بھی اپنی اہمیت ہے، کیونکہ دینِ فطرت ہونے کے ناطے اس کا ہر عمل انسان کے لئے ہر اعتبار سے مفید ہے۔
بھینگے پن میں ایک آنکھ دماغ کی ایک سمت کی تصویر بنا کر دکھاتی ہے اور دوسری آنکھ اس سے مختلف تصویر بنا کر پیش کرتی ہے۔مطلب یہ کہ دماغ پر دو مختلف تصاویر بن رہی ہوتی ہیں دماغ کو یہ بات کسی صورت قبول نہیں ہوتی۔آنکھوں کا بھینگا پن زیادہ تر بچوں میں دیکھا جاتا ہے لیکن یہ زندگی کے کسی بھی حصے میں بھی آپ کو متاثر کر سکتا ہے۔بڑی عمر کے بچوں یا افراد میں بھینگا پن مختلف طبی حالتوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے جیسے دماغی یا جسمانی فالج وغیرہ۔
یکو سے ملتا جلتا باہر سے خاکی اور اندر سے تر و تازہ سبز رنگ کے گودے پر مشتمل رسیلا اور لذیذ ”کیوی پھل“ جو نہ صرف فروٹ سیلڈز کو آنکھوں کے لئے خوشنما بناتا ہے بلکہ کئی فوائد کا حامل ہے۔ذائقے میں ہلکا ترش چینی خطے سے تعلق رکھنے والا قدیم زمانے سے اپنے اندر موجود غذائیت کے اعتبار سے مفید مانا جاتا ہے جو مغربی ممالک میں تو میٹھے کھانوں میں طویل عرصے سے استعمال ہو رہا ہے اب باآسانی پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔یہاں ہم کیوی پھل کے چند فوائد کا ذکر کر رہے ہیں جنہیں پڑھ کر آپ بھی اس پھل کے گرویدہ ہو جائیں گے۔
ان تکلیف میں نہ صرف درد، بلکہ پٹھوں کا کھچاؤ ، سوجن اور جوڑوں کا درد بھی شامل ہے۔
تحقیق کے مطابق خواتین اساتذہ کا گردن جھکا کرکاپیاں چیک کرنا، بلیک بورڈ زیادہ استعمال کرنا، زیادہ دیرتک کھڑے رہنا اور ذہنی دباؤ ان تکلیف کی اہم وجوہ ہیں، جوان کی زندگی کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔ ان تکلیف کے اثرات نہ صرف جوڑوں ، بلکہ خواتین اساتذہ کے پورے جسم پر پڑتے ہیں۔عمر اور وقت کے ساتھ یہ تکلیف بڑھتی چلی جاتی ہیں اور نوبت جسمانی معذوری تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر جسم پر پڑتے ہوئے اثرات کوزیر غور لایاجائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کچھ درد کمر کے مہروں کی خرابیوں سے منسلک بھی ہوتے ہیں، جن میں گردن یاکمر کادرد شامل ہے، جو بڑھتے بڑھتے بازوؤں اور ٹانگوں تک پہنچ جاتا ہے اور جسم سن ہونے لگتا ہے ۔ اس درد کابروقت علاج اور احتیاط بہت ضروری ہے۔
اگر آپ روغنی مچھلیاں نہ کھاکر قلب اور شریانوں کے لیے مفید اومیگا۔ 3نامی چکنائیاں حاصل نہیں کر سکتے توان کے بجائے روزانہ اخروٹ کی ایک مٹھی گری کھانا اپنا معمول بنالیجیے۔ پنسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی کی تحقیق کار ڈاکٹر شیلا کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ اخروٹ کھانے سے بلاشبہ خون میں کولیسٹرول کی سطح مناسب رہتی ہے۔
باقر خانی میٹھی روغنی ٹکیہ ہے جو بسکٹ جیسی ہلکی پھلکی تہہ دار میٹھی چیز ہے اور عام طور پر صبح اور شام کے ناشتوں میں استعمال ہوتی ہے۔باقر خانی کا قدیم وطن ڈھاکا ہے یہ عہد مغلیہ کی ایجاد ہے۔بنگال کے علاقے میں جو اقسام مشہور ہیں ان میں گاؤ جوبان، شوکھا،نیم شوکھی،گائے چار روٹی،ملام،چن شوکی اور کشمیری ہیں۔