types of solar panels 1394x800 1 2

Ghar Ke Malikon Ka Solar Panel Lagane Se Aam Awam Par Mehengi Bijli Ka Bojh Kese Parh Raha Hai?

پاکستان میں حالیہ برسوں میں بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور بجلی کے بیس ٹیرف میں مختلف سلیبز میں نوے سے سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
Decision to start solar panels manufacturing in country
aamtv.pk

بجلی کے بیس ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ہر مہینے فیول ایڈ جسٹمنٹ سرچارج کی مد میں بھی صارفین پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ پاکستان میں ابھی بھی مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار ہے اور اس کے ساتھ بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے مہنگے معاہدے ہیں۔

ان معاہدوں کے تحت ملک میں بجلی کی کھپت نہ ہونے کے باوجود حکومت کو ان کمپنیوں کو اس اضافی بجلی کی پیداوار کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جو حکومت نے استعمال ہی نہیں کی اور اسے کیپسٹی پیمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس ادائیگی کا بوجھ بھی بلوں میں صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔

بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر پینلز کی مانگ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں گھریلو صارفین سے لے کر زراعت کے شعبے میں ٹیوب ویل اور صنعتیں شامل ہیں جو سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔

مگر ان افراد کو پریشانی اس وقت لاحق ہوئی جب گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ حکومت سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے افراد پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔

ان خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسے گھریلو اور کمرشل صارفین پر ٹیکس عائد کیا جائے گا جو سولر پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پید ا کر رہے ہیں اور یہ ٹیکس دو ہزار روپے فی کلو واٹ ہوگا۔ ان خبروں میں کہا گیا کہ پاکستان کے پاور ڈویژن کی جانب سے یہ سمری تیار کر کے حکومت کو بھیجی گئی ہے۔

تاہم ایسی خبروں کی حکومت کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔ پاور ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

پاور ڈویژن نے اپنے جاری اعلامیے میں کہا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاور ڈویژن نے حکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’یہ بات درست ہے کہ نیٹ میٹرنگ کا موجودہ نظام شمسی توانائی میں غیر صحت مندانہ سرمایہ کاری کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشہ سولر پینل لگا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں ایک روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلے دو برسوں میں ان ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین کے بلوں میں کم از کم تین روپے 35 پیسے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق 2017 کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا۔ 2017 کے بعد اب ایک ایسا مرحلہ آیا ہے کہ اس سولرائزیشن میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔

پاور ڈویژن کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ 2017 کی پالیسی میں وقت کے ساتھ ساتھ نرخ اور قواعد و ضوابط میں ترامیم اور اضافے کی ضرورت تھی جوکہ بدقسمتی سے روبہ عمل نہ ہوسکی۔

پاورڈویژن نے کہا ہے کہ وہ اس پورے نظام کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے اور ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہا ہے جن سے غریب آبادی کو مزید بوجھ سے بچایا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ ڈیڑھ سے دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جائے۔

آئی پی پی سے معاہدوں میں حکومت کی کیا مجبوری ہے؟

پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کی جاتی ہے جن میں حکومتی تحویل میں چلنے والے واپڈا کے ڈیموں سے پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ زیادہ بجلی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی ) سے پیدا کی جاتی ہے جو نجی شعبے میں کام کرتے ہیں۔

حکومت کے ان کمپنیوں سے معاہدوں کے مطابق یہ کمپنیاں جو بجلی پیدا کرتی ہیں اس کے استعمال ہونے پر تو ادائیگی کی جاتی ہے لیکن اگر یہ بجلی استعمال نہ بھی ہو تو بھی حکومت ان کمپنیوں کو ادائیگی کرنے کی پابند ہے جسے کیپسٹی چارجز کہتے ہیں۔

توانائی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بی بی سی اردو کو اس سلسلے میں بتایا ان بجلی کمپنیوں سے حکومت کے معاہدوں کی مثال کچھ ایسے ہے کہ حکومت نے بجلی کے کارخانے کرایے پر لیے ہیں جنھیں استعمال کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورت میں حکومت کو کرایہ ادا کرنا ہے۔

پاکستان میں کیپسٹی چارجز کا بجلی کی قیمت میں ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ ملک میں بجلی کے شعبے کے نگران ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی موجودہ مالی سال کے لیے جو انرجی پرچیز پرائس طے کی گئی ہے اس کے مطابق حکومت 20.60 روپے فی کلو واٹ بجلی خریدے گی جس میں صرف کیپسٹی چارجز 14.09 روپے فی کلو واٹ ہے۔

نیپرا کی دستاویز کے مطابق حکومت کو اس سال بجلی کی خریداری پر تقریباً 2900 ارب روپے خرچ کرنے ہیں جس میں 1950 روپے اسے کیپسٹی چارجز کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔

راؤ عامر نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے کیپسٹی چارجز کی صورت میں بڑی رقم ادا کی جا رہی ہے اور یہ رقم اور زیادہ ہوتی اگر تحریک انصاف کی حکومت میں نوے کی دہائی کے پاور پلانٹس کے کیپسٹی چارجز کو ڈالر کی قیمت 160 روپے پر فکس نہ کی جاتی۔

انھوں نے کہا اس وقت ڈالر کی قیمت 280 روپے اور اگر یہ پلانٹس بھی اس پر کیپسٹی چارجز لیتے تو یہ رقم مزید بڑھ جانی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پلانٹس سی پیک اور 2017 کے بعد لگے اور ان کی کیپسٹی پیمنٹ اگلے 20-25 سال تک حکومت کو ادا کرنی پڑے گی۔

سولر کے رجحان سے بجلی کیوں مہنگی ہو رہی ہے؟

پاکستان میں سولر انرجی کا رجحان بڑھا تو اس کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے کہا گیا کہ ملک میں سولر انرجی کے استعمال سے عام صارفین کے لیے بجلی مہنگی ہو رہی ہے۔

پاکستان میں مالی سال 2023 میں سولر انرجی کا مجموعی بجلی کی پیداوار میں حصہ 0.8 فیصد رہا جب کہ پن بجلی 28.6 فیصد، نیوکلیئر 18.6 فیصد، آر ایل این جی 17.1 فیصد، کوئلہ 16 فیصد، گیس 11 فیصد اور فرنس آئل کا حصہ چار فیصد رہا۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق سولر انرجی کو زیادہ تر وہ افراد اپنا رہے ہیں جو استطاعات رکھتے ہیں اور بنیادی مسئلہ نیٹ میٹرنگ ہے جس میں حکومت کو سولر انرجی کے ذریعے بجلی بنانے والے صارفین سے بجلی خریدنا پڑتی ہے۔

راؤ عامر کہتے ہیں کہ ایک اور مسئلہ جو حکومت کو سولر پینلز استعمال کرنے والے ایسے صارفین سے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ عموماً یہ اچھے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر اور لائن لاسز بھی کم ہوتے ہیں اور ماہانہ پانچ سے سات سو یونٹس استعمال کرنے والے ان صارفین سے بجلی کی بلوں کی ریکوری بھی آسان تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اب نیشنل گرڈ پر جو صارفین بچتے ہیں ان کی بجلی کی کھپت بھی کم ہے اور وہاں سے بجلی کے بلوں کی مد میں ریکوری بھی کم ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہی ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک وین کی دس سواریوں میں سے تین نے اپنی گاڑی خرید لی اور اب وین کا کرایہ باقی سات لوگوں کو برداشت کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو کیپسٹی چارجز تو دینے ہیں لیکن جب امیر طبقہ لاکھوں روپے کا سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر لے گا اور اسے نیٹ میٹرنگ سے حکومت کو بھی بیچے گا تو لازمی طور پر حکومت پر بوجھ پڑے گا کیونکہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو اسے بجلی کمپنیوں کو پیسے تو پورے دینے ہیں۔

پاکستان میں سولر انرجی کا رجحان کتنا بڑھا ہے؟

پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران سولر انرجی کے استعمال کے بڑھتے رجحان کو دیکھا گیا ہے۔

اس بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہر ریونیوبل فرسٹ میں پروگرام منیجر مصطفیٰ امجد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں سولر انرجی ایک نئی پیش رفت ہے جس میں اس وقت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب ملک میں بجلی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا۔

انھوں نے کہا ٹیکس کی جو بات کی گئی ہے وہ دراصل میں نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس ہے یعنی جب سولر پینل سے بجلی بنا کر اسے حکومت کو بیچا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا نیٹ میٹرنگ والے سولر پینل امیر افراد ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کتنے افراد سولر پینل استعمال کرتے ہیں اس کے بارے میں فی الحال کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

Read More: Jab Ek Pakistani Pilot Ne Israeli Laraka Plane Maar Giraya

More Reading

Post navigation

Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *