113245290 gettyimages 2637576 2

Kia ‘Bharat Maata Ki Jai’ Ka Naara Ek Musalman Ne Lagaya Tha?

انڈیا کے ہندوتوا سیاست دان، رہنما اور کارکن اکثر ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن مورخین کے ایک گروہ کا دعویٰ ہے کہ سنہ 1857 میں برصغیر کی جنگ آزادی کے دوران ایک مسلم آزادی پسند نے یہ نعرہ سب سے پہلے لگایا تھا۔
bharat
aamtv.pk

حال ہی میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں مسلم کمیونٹی کے افراد سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگانے کو تیار کیوں نہیں۔

پچھلے کچھ برسوں کے دوران ایسے متعدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جب ہندو اکثریت والے مشتعل ہجوم نے مسلمانوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور ان میں سے کچھ میں ہندوتوا کے لوگ مسلمان افراد کو ہراساں کرتے ہوئے انھیں ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ لگانے کا کہتے رہے۔

اگرچہ مورخین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ نعرہ ایک مسلم آزادی پسند نے دیا تھا لیکن عام لوگوں کو اس کا علم کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین کی تقریر سے ہوا۔

انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے وجین کی پیر کو کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔

اس میں وجین کہتے ہیں کہ ’سنگھ پریوار کے لوگ یہاں آتے ہیں اور سامنے بیٹھے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ نعرہ کس نے لگایا تھا؟ مجھے نہیں معلوم کہ سنگھ پریوار کو معلوم ہے یا نہیں۔ اس کا نام عظیم اللہ خان تھا۔‘

مورخین کے مطابق عظیم اللہ خان 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے اہم ترین کرداروں میں سے ایک تھے جنھیں بہت سے لوگ ’بغاوت کا سپاہی‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

مورخ اور مصنف سید عبید الرحمن بی بی سی بنگلہ کو بتاتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عظیم اللہ خان ہی تھے جنھوں نے ’مادرِ وطن ہندوستان زندہ باد‘ کا نعرہ دیا تھا۔‘

مورخین کا کہنا ہے کہ ’بھارت ماتا کی جے‘ عظیم اللہ خان کے نعرے کا ہندی ترجمہ ہے۔

لیکن اسلامی الہیات کے ماہر محمد قمر زمان کہتے ہیں کہ ’مادر وطن ہندوستان زندہ باد‘ کا لفظی ترجمہ ’مادر وطن ہندوستان زندہ باد‘ ہے۔

کیرالہ کے وزیر اعلیٰ وجین نے کہا ہے کہ جس طرح سفارت کار عبدی حسن سفرانی نے ’جے ہند‘ کا نعرہ دیا تھا، اسی طرح محمد اقبال نے مشہور حب الوطنی کا گانا ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ لکھا تھا۔

عظیم اللہ خان کون تھے؟

سید عبید الرحمن کے مرتب کردہ انڈین مسلم فریڈم فائٹرز کے سوانح حیات میں عظیم اللہ خان پر ایک الگ باب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’عظیم اللہ خان 1857 کی بغاوت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔

وہ انگریزی اور فرانسیسی سمیت کئی غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ بہت سے دیگر آزادی پسندوں کو غیر ملکی زبانوں کا اتنا علم نہیں تھا۔ وہ اعلیٰ برطانوی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان میں زیادہ تر لوگ سمجھتے تھے کہ برطانوی فوج ناقابل تسخیر ہے، انھوں نے ترکی، کریمیا اور یورپ کا دورہ کیا اور دیکھا کہ وہاں برطانوی فوج کو شکست ہو رہی ہے۔

عبید الرحمان نے لکھا ہے کہ عظیم اللہ پیشوا دوم باجی راؤ کے لے پالک بیٹے نانا صاحب کے دیوان تھے۔ بعد میں وہ ان کے وزیر اعظم بن گئے۔

ونائک دامودر ساورکر، جنھیں ہندو قوم پرستی کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، نے عظیم اللہ خان کے بارے میں اپنی کتاب The Indian War of Independence of 1857 میں لکھا ہے کہ ’عظیم اللہ خان 1857 کی بغاوت کے یادگار ترین کرداروں میں سے ایک تھے۔ ان لوگوں کو خصوصی مقام دیا جانا چاہیے جنھوں نے سب سے پہلے آزادی کی لڑائی کا سوچا تھا۔‘

پیشوا دوم باجی راؤ کا لے پالک بیٹا ہونے کی وجہ سے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے باجی راؤ کی موت کے بعد نانا صاحب کی پینشن روک دی تھی۔

ساورکر کے علاوہ کئی دوسرے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ نانا صاحب نے عظیم اللہ خان کو انگلستان بھیجا تھا تاکہ جانشینی کا تنازعہ طے کیا جا سکے۔ عظیم اللہ تقریباً دو سال انگلینڈ میں رہے اور 1855 میں ہندوستان واپس آئے۔

انگریزی اور فرانسیسی سمیت کئی غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھنے کے باوجود عظیم اللہ خان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ وہ اور ان کی ماں 1837-38 کے قحط کے دوران زندہ بچ گئے تھے۔ انھیں کانپور میں ایک عیسائی مشن میں پناہ ملی تھی۔

مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی برطانوی حکام کے گھروں میں ویٹر اور کبھی باورچی کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس دوران انھوں نے انگریزی اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں۔

انگلینڈ اور یورپ کے دورے سے واپسی کے بعد عظیم اللہ خان ترکی اور کریمیا گئے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے نانا صاحب کو بغاوت شروع کرنے کا مشورہ دیا۔

اخبار کے ذریعے آزادی کی اپیل

عظیم اللہ خان نے یورپ سے واپسی کے بعد پیام آزادی کے نام سے اخبار شروع کیا۔ یہ اردو، مراٹھی اور ہندی میں شائع ہوتا تھا۔ وہ یورپ سے پرنٹنگ مشین لائے تھے۔ ان کا اخبار اسی مشین پر چھپتا تھا۔

اردو صحافت کی تاریخ اور جدوجہد آزادی پر تحقیق کرنے والے فیصل فاروقی کا کہنا ہے کہ عظیم اللہ خان نے اپنے ہی اخبار کے ذریعے بغاوت اور آزادی کے نظریات کا پرچار شروع کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے اخبار کے ذریعے انھوں نے بار بار تمام برادریوں، مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں کو آزادی کے لیے ترغیب دی۔ جس گنگا جمونی ثقافت کی بات کی جاتی ہے، وہ ہمیشہ ان کی تحریروں میں نظر آتی رہی۔ انھوں نے پہلی جدوجہد آزادی یا سپاہی بغاوت کا ترانہ بھی لکھا تھا۔‘

فیصل فاروقی نے وہ ترانہ پڑھا اور اس کی آخری دو سطروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عظیم اللہ خان کس طرح تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتے تھے۔۔۔’ہندو، مسلمان، سکھ، ہمارے بھائی، پیارے بھائیو، یہ آزادی کا جھنڈا ہے، ہم اسے سلام کرتے ہیں۔ یعنی ہندو، مسلمان اور سکھ سب بھائی بھائی ہیں، ہم آزادی کے اس پرچم کو سلام کرتے ہیں۔‘

مؤرخ اور مصنف سید عبید الرحمن کہتے ہیں کہ اسی دور میں انھوں نے اپنے اخبار میں نعرہ مادرِ وطن لکھا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نعرہ انھوں نے لکھا تھا لیکن اس نعرے کو الگ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ان کا اخبار باقاعدگی سے جدوجہد آزادی کو فروغ دینے کے لیے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا مطالبہ کرتا ہے۔ عظیم اللہ اسی طرح کے نعرے لکھتے تھے۔‘

تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ خان صاحب نے سب سے پہلے مادرِ وطن ہندوستان کا نعرہ دیا تھا۔

عبید الرحمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عظیم اللہ خان 1857 کے اہم منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔

عظیم اللہ کی موت 1859 میں نیپال کے علاقے ترائی میں ہوئی۔ برطانوی سپاہیوں کے ہاتھوں سے بچتے ہوئے وہ بیمار ہو گئے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ شاید ان کے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی وجہ سے ان کا مناسب علاج نہ ہو سکا۔

مادر وطن کے نعرے کے علاوہ۔۔۔

مؤرخ اور مصنف سید عبید الرحمن کہتے ہیں کہ ’مادرِ وطن کے نعرے‘ کے علاوہ کئی دوسرے باغی نعرے بھی مسلم لیڈروں نے بنائے۔

انھوں نے کہا کہ ’مولانا حسرت موہانی، جو کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک اور آزادی پسند رہنما تھے، نے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا تھا، اسی طرح یوسف مہر علی نے ’ہندوستان کو چھوڑو‘ کا نعرہ دیا تھا۔ سائمن وہی شخص تھے جنھوں نے ’گو بیک ‘ کا نعرہ دیا تھا۔ ان لوگوں کا نام کوئی نہیں لیتا۔‘

عبید الرحمان کے مطابق 1857 کی پہلی جنگ آزادی ہو یا 1910 سے 1947 تک، اس پورے عرصے میں ہندو، مسلمان اور سکھ سب کندھے سے کندھا ملا کر لڑے۔

انھوں نے کہا کہ کیا کسی کو معلوم ہے کہ کتنے مسلمان نیشنل کانگریس کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ابوالکلام آزاد کے نام سے سبھی واقف ہیں لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کل آٹھ مسلمان کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں۔

’بھارت ماتا‘ کا نعرہ کہاں سے آیا؟‘

’بھارت ماتا کی جے‘ جسے ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ ایک سیاسی اور حب الوطنی کے نعرے کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے، سال 1866 سے پہلے اس کا ذکر نہیں ملتا۔

سنیگدھیندو بھٹاچاریہ، جو ہندوتوا کی سیاست پر تحقیق کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’بنگال میں سنہ 1866 میں انیسویں پران میں بھارت ماتا کا ذکر کیا گیا تھا، جسے شاید بھودیو مکوپادھیائے نے کرشنا دوپیان ویاس کے نام سے لکھا تھا۔ اگلے ہی سال بھارت ماتا کا ذکر انیسویں پران میں ہوا۔ ہندی میلے کے افتتاح کے موقع پر دویجیندر ناتھ ٹھاکر نے ان کا لکھا گانا ملن مکھ چندر، ما بھارت تواری گایا تھا، اس کا ذکر وپن چندر پال کے مضمون میں بھی ملتا ہے، یہ گانا کرن چندر کے لکھے ہوئے ڈرامے ’بھارت ماتا‘ میں بھی استعمال ہوا تھا۔

سنیگدھیندو نے کہا کہ ’تاہم، یہ معلوم نہیں کہ اس وقت بنگال میں بھارت ماتا کی جے کا نعرہ مقبول ہوا تھا یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تب تک بنکم چندر کا لکھا ہوا وندے ماترم کافی مقبول ہو چکا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 1860 سے پہلے بنگال یا ہندوستان میں بھارت ماتا کا کوئی ذکر یا استعمال نہیں۔ ایسے میں عظیم اللہ خان نے مادر وطن ہندوستان زندہ باد کا نعرہ دیا تھا۔

ابنیندر ناتھ ٹھاکر نے 1905 میں مدر انڈیا کی پہلی تصویر بنائی تھی۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے سنیگدھیندو کہتے ہیں کہ ’دراصل بھارت ماتا کی جے اور مادرِ وطن ہندوستان، ایک ہونے کے باوجود، ہندوتوا لوگوں کی نظروں میں مختلف ہیں۔ ہندوستانی قوم پرستی، ہندو قوم پرستی اور بنگالی قوم پرستی، تینوں نے ایک ہی بنگال میں جنم لیا۔ ’یہ 1850 میں ہوا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہندوستانی قوم پرستی، ہندو قوم پرستی اور علاقائی قوم پرستی ابھری اور دوسرے علاقوں میں پھیل گئی۔‘

Read More: Rooh Afza Pakistan Or India Se Bhi Poorana Hai

More Reading

Post navigation

Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *